پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال

بجٹ ہر سال حکومت کی طرف سے تیار کی جانیوالی وہ اہم دستاویز ہے جو حکومتی دعووں اور وعدوں کو عملی شکل دیتی ہے اور جس کی بنیاد پر حکومتی کارکردگی کو جانچا جاسکتا ہے بجٹ کے اعدادوشمار جس قدر شفاف انداز میں مرتب کرکے عوام کیساتھ شیئر کیے جائیں گے اسی قدرحکومت کے وعدوں اور دعووں پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔اس لیے بجٹ میں شفافیت اس امر کامتقاضی ہے کہ ہر شہری کے پاس بجٹ سازی کے عمل کا جائزہ لینے اور اس میں شمولیت کے پورے مواقع ہوں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں بجٹ کی دستاویز خفیہ طور پر تیارکی جاتی ہے اور شہریوں یا ان کے نمائندوں کو شمولیت کا خاطر خواہ موقع نہیں مل پاتا۔پاکستان میں مختلف غیر سرکاری ادارے بجٹ شفافیت جیسے اہم موضوع پر ایک عشرے سے سرگرداں ہیں لیکن اس سلسلہ میں تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔بجٹ شفافیت کی اہمیت کے مد نظر اوپن بجٹ پارٹنر شپ کی طرف سے ہر دوسال بعد دنیا کے 100سے زائد ممالک میں انکے وفاقی بجٹ بارے سروے کیا جاتا ہے جس کے ذریعے بجٹ میں پائی جانیوالی شفافیت کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جاتا ہے۔اگر پاکستان کی بات کی جائے تو حالیہ برسوں کے دوران اوپن بجٹ انڈکس پر پاکستان کی افسوسناک کارکردگی نے بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت اور شہریوں کی شمولیت سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہی ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے مالی سال 21-2020 کے وفاقی اور صوبائی بجٹ کا مختلف پہلووں سے جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی گئی جس میں یہ بھی دیکھا گیا کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین معلومات کے حصول میں کس حد تک مؤثر ہیں۔ یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ مختلف وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کے لئے ارسال کردہ  درخواستوں سے متعلق ہے جن میں بجٹ سازی کے عمل کے دوران مختلف مراحل  کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔ دوسرے حصے میں بجٹ دستاویزات کی جامعیت اور بجٹ سازی میں شہریوں کی شرکت کا جائزہ لیا گیا ہے۔بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کو جانچنے کیلئے منتخب وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات  کے حصول کی 150 درخواستیں بھجوائی گئیں۔ ان میں سے 36 درخواستیں وفاقی وزارتوں کو  ارسال کی گئیں جن میں سے صرف 6 کے جواب موصول ہوئے۔ ان میں سے بھی 3 جوابات معلومات تک رسائی کے وفاقی قانون میں طے شدہ مدت کے اندر جبکہ باقی 3 تاخیر سے موصول ہوئے۔ اسی طرح چاروں صوبوں کے مختلف محکموں کو معلومات فراہم کرنے کی کل 114 درخواستیں ارسال کی گئیں۔ خیبرپختونخوا ہ سے صرف 2 اور پنجاب سے 4 جوابات موصول ہوئے جو سب کے سب تاخیر سے ملے بلوچستان اور سندھ میں معلومات کی کسی بھی درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔یاد رہے کہ معلومات کے حصول کیلئے درخواستیں اُس بجٹ کیلنڈر کی بنیاد پر ارسال کی گئیں جو وزارت خزانہ/محکمہ خزانہ نے متعلقہ وزارتوں / محکموں کو ”بجٹ کال سرکلر” (بی سی سی) بھجواتے وقت جاری کیاتھا۔

 رپورٹ کے دوسرے حصے میں بجٹ اجلاس کے دورانیہ،بجٹ دستاویزات کی دستیابی اور جامعیت،سیٹیزن بجٹ کی دستیابی اور اسکے مواد،بجٹ سازی اور مساوات،بجٹ سازی اور بجٹ پر عملدرآمد کے دوران انتظامی اداروں پر مقننہ (پارلیمنٹ)کی نگرانی سمیت بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت پر مشتمل سوالات شامل تھے جو ”اوپن بجٹ سروے” (او بی ایس) سے لئے گئے تھے۔یہ تفصیلی سوالات بجٹ سازی کے عمل کے چاروں مراحل کا احاطہ کرتے ہیں جبکہ بعض سوالات کو پاکستانی تناظر کے مطابق تبدیل کرنے کیساتھ ساتھ ان میں اضافہ بھی کیاگیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسمبلیاں نسبتاً  انتہائی قلیل عرصہ میں ہی بجٹ کی منظوری دے دیتی ہیں۔مثال کے طور پر وفاقی بجٹ 12 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور 15 جون 2020 کو اس پر بحث شروع ہوئی۔ 29 جون 2020 کو یعنی مالی سال شروع ہونے سے صرف دو دن پہلے بجٹ منظور کر لیا گیا۔جبکہ قواعدو ضوابط کے مطابق  اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے کے کم از کم دو دن بعد اس پر بحث کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ بجٹ دستاویزات فراہم کرنے کے معاملے میں مقننہ اور شہریوں دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور رپورٹ کے مطابق انتظامی ادارے بجٹ سازی سے متعلق معلومات شہریوں کو دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جبکہ مقننہ کے معاملے میں بھی اسی رازداری سے کام لیا جاتا ہے اور ایوان میں بجٹ پیش کئے جانے سے پہلے انہیں اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی جاتیں۔ بجٹ کی اشاعت، شہریوں کو اس سے آگاہ کرنے اور اسمبلی میں پیش کرنے کی تاریخیں سبھی حکومتوں میں ایک ہی رہی ہیں۔ روایت یہی ہے کہ بجٹ والے دن صبح کے وقت پہلے یہ کابینہ میں پیش کیا جاتا ہے، کابینہ سے منظور ی حاصل کرنے کے بعد  اسی دن سہ پہر  یہ اسمبلی میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ وزیرِ خزانہ کی بجٹ تقریر ختم ہوتے ہی بجٹ دستاویزات امورِ خزانہ کی وزارت/ محکمے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی بجٹ دستاویزات معقول حد تک جامع ہوتی ہیں اور بجٹ بین الاقوامی سطح پر اپنائے جانے والے درجہ بندی کے نظام یا ‘کلاسیفکیشن سسٹم’ کے مطابق پیش کیا جاتا ہے صرف یہی ایک شعبہ ہے جس میں کارکردگی قدرے بہتر ہے تاہم یہاں پر بھی ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے مثلاً اخراجات اور ریونیو کے تخمینہ جات (جو بجٹ سال کے دو سال بعد تک کے برسوں کیلئے ہونے چاہئیں)  ایک سے زیادہ برسں کیلئے پیش نہیں کئے جاتے۔بجٹ دستاویزات کثیرالمدتی تخمینہ جات اور بجٹ سال سے پہلے  کے برسوں میں ہونیوالیاصل اخراجات کو ظاہر نہیں کرتیں۔ پاکستان میں بجٹ کے اعدادوشمار ”مشین ریڈیبل” شکل میں پیش نہیں کئے جاتے۔جو آزادانہ طور پر بجٹ کو جانچنے اور تجزیہ کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ بجٹ دستاویزات  پی ڈی ایف (PDF Document)کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ان فائلوں کا ڈیٹا اس طرح سے ترتیب دیا جاتا ہے کہ اسے مشین ریڈ ایبل شکل میں  تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا  اور یوں اعدادوشمار کا تجزیہ کرنا بھی تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

سیٹیزن بجٹ

پاکستان میں سیٹیزن بجٹ کی مضبوط روایت موجود نہیں ہے۔ چند سال قبل صوبہ پنجاب نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور تب سے زیادہ تر حکومتوں نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے تاہم سیٹیزن بجٹ کا مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ایک عام آدمی یہ جان سکے کہ بجٹ میں اسکے فائدہ کیلئے کیا رکھا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں سیٹیزن بجٹ عام طور پر منظور شدہ بجٹ کا خلاصہ دکھا دیتا ہے اور عام شہری اس سے کوئی مفید معلومات اخذ نہیں کر پاتے 2010 کے بعدسے مقامی حکومتوں کانظام مؤثر نہیں رہا اور اضلاع کی ترقیاتی سکیمیں صوبائی بجٹ میں شامل کر دی جاتی ہیں اس لئے شہریوں کو اپنے اضلاع کی سکیموں کے بارے مکمل معلومات مل نہیں پاتیں۔

بجٹ سازی اور مساوات

پاکستا ن میں بجٹ کو کسی خاص زاویہ سے پیش کرنے کا کوئی خاص رواج نہیں ہے مثال کے طور پر صنفی تقاضوں پر مبنی بجٹ سازی (Gender based budgeting)کا طریقہ کئی ممالک میں قومی، ریاستی اور مقامی سطح کی حکومتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 07-2005 کے دوران یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی مالی معاونت سے صنفی تقاضوں سے ہم آہنگ بجٹ سازی متعارف کرانے کی کچھ کوششیں کی گئیں لیکن یہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکیں۔ سی پی ڈی آئی نے  15-2014 میں پاکستان میں بچوں کیلئے مختص بجٹ پر کام کیا۔اس دوران یہ سامنے آیا کہ2010-11سے 2013-14کے دوران پاکستان میں بچوں کے لئے مختص بجٹ صوبائی سطحوں پر 10 فیصد کے لگ بھگ جبکہ وفاقی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم تھا۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر معذورافراد کے لئے مختص کی جانے والی رقوم کا تجزیہ کرنا اس رپورٹ کے دائرکارمیں شامل نہیں۔ یہاں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ معذوری سے متعلق بجٹ سازی پر کوئی تجزیہ یا بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ یہی حال اقلیتوں سے متعلق بجٹ سازی کا ہے۔ بجٹ سازی کے عمل میں منتخب اسمبلیوں کی نگرانی کاکام پاکستان میں ہمیشہ سے کمزور رہا ہے اور یہ سروے اس مفروضے کی تصدیق کرتا ہے اور مقننہ بھی عام آدمی کی طرح  بجٹ سازی اور ا س پر عملدرآمد کے عمل سے بالکل بے خبر رہتی ہے۔ ایگزیکٹو/انتظامیہ کو دیا گیا آئینی تحفظ مقننہ کے کردار کو مزید کمزور بنا دیتا ہے کیونکہ ایگزیکٹو/انتظامیہ   کو آئین کے تحت پورا اختیار حاصل ہے کہ دوران سال فنڈز کو اِدھر اُدھر کر سکتی ہے، انہیں ایک سے دوسرے انتظامی یونٹ یا منصوبے  میں منتقل کر سکتی ہے، اور یہاں تک کہ نئے منصوبے شروع کر سکتی ہے اور منظور شدہ منصوبوں کو ترک کر سکتی ہے۔ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو منظور شدہ بجٹ میں تبدیلیاں کرنے کے لئے مقننہ کی پیشگی منظوری کی شرط عائد کرے۔ ان تمام تبدیلیوں پر مشتمل ضمنی بجٹ سال کے آخر میں اسمبلی میں پیش کر دیا جاتا ہے اور ایک ہی دن میں منظور کرا لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا نظام کمزور ہے اور بجٹ سازی اور اس پر عملدرآمد سے متعلق معلومات کو افشا کرنے کے معاملے میں تو یہ اور بھی زیادہ کمزور ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی آزاد ادارہ موجود نہیں جو سال کے دوران بجٹ پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔ بعض سول سوسائٹی تنظیموں نے اس شعبے میں دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن پاکستان میں بجٹ کا شمار ابھی بھی ان شعبوں میں نہیں ہوتا جن میں شہریوں اور شہریوں کے گروپوں کی مداخلت جائز سمجھی جاتی ہو۔

بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت کا معاملہ پاکستان میں بجٹ ماہرین اور بجٹ پر کام کرنیوالی غیر سیاسی تنظیموں کے ہاں گہری تشویش کا باعث رہا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس میں کچھ زیادہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔  بین الاقوامی سطح پر بھی یہ رحجان کچھ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔نیوزی لینڈ جیسا ملک جو ”اوپن بجٹ سروے” کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر رہا،شہریوں کی شمولیت کے حوالہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا تاہم ان ممالک اور پاکستان کے درمیان ابھی بھی ایک بہت بڑا  فاصلہ  ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسا طے شدہ نظام موجود نہیں جو بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت یقینی بنائے۔ رواں سال پنجاب حکومت نے میڈیا پر اشتہار کے ذریعے شہریوں کو تجاویز جمع کرانے کی دعوت دی۔ اس عمل کو ” شمولیت پر مبنی بجٹ سازی” (Inclusive Budgeting) کا نام دیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تجاویز جمع کروانے کیلئے  15 مئی سے 28 مئی تک کا وقت دیا گیا مختلف بجٹ سرگرمیوں کے لئے طے شدہ اوقات کے شیڈول  کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام بہت تاخیر سے کیا گیا۔ اشتہار میں ایک بہت ہی عمومی سوال کیا گیا کہ ”وہ کون سے شعبے میں جن میں آپ چاہیں گے کہ حکومت سرمایہ لگائے؟حکومت پنجاب کے دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 1000 سے زائد بجٹ تجاویز موصول ہوئیں جن میں 259 (82 فیصد) معیار پر مبنی (Qualitative) اور 55 (18 فیصد) مقدار پر مبنی (Quantitative) تجاویز شامل تھیں۔ ان تجاویز کی کل تعداد 314 بنتی ہے۔ باقی تجاویز کس نوعیت کی تھیں، یہ واضح نہیں کیا گیا۔ دستاویز میں واضح طور پر یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ معیار پر مبنی تجاویز اور مقدار پر مبنی تجاویز سے کیا مراد ہے۔ یہ دستاویز اس بارے میں بھی خاموش ہے کہ حکومت نے کتنی تجاویز پر عملی اقدام اٹھایا۔ اگرچہ یہ ایک با معنی کوشش نہیں تھی تاہم پنجاب حکومت یہ اقدام کرنے والی واحدحکومت ہے۔ وفاقی سطح پر یا دیگر صوبوں کی طرف سے اس طرح کی کوئی کاوش سامنے نہیں آئی۔ سروے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بجٹ سازی میں شہریوں کی شمولیت کے لئے کسی متعلقہ وزارت یا محکمے میں کوئی نظام یا طریقہ موجود نہیں۔ بحیثیت مجموعی، شہریوں کی شمولیت کے معاملے میں تمام حکومتوں کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے جس میں بہتری کیلئے  ان حکومتوں کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ دوسرے حصے پر نظر ڈالیں تو وفاقی حکومت کل 181 پوائنٹس میں سے 71 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے پنجاب دوسرے اوربلوچستان تیسرے نمبر پر دکھائی دیتے ہیں جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ  چوتھی اور پانچویں پوزیشنز پر۔بجٹ دستاویزات کی جامعیت کے اعتبار سے تمام حکومتوں کی کارکردگی قدرے تسلی بخش رہی اور فنکشنل و اقتصادی درجہ بندی (Functional and Economic/Object Classification) کے بین الاقوامی معیارات کو مد نظر رکھا گیاہے۔ تاہم بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت، انتظامی اداروں پرمقننہ (Legislature)کی نگرانی اور سٹیزن بجٹ(Citizens Budget) کی افادیت کے اعتبار سے حکومتوں کی کارکردگی کمزور رہی۔

اس مشق سے نہ صرف بجٹ شفافیت اور اس میں عوامی شمولیت کی صورتحال سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق موجودہ صورتحال کا بھی احاطہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر وفاقی وزارتوں میں ابھی تک پبلک انفارمیشن آفیسر(پی آئی او) مقرر نہیں کئے گئے۔  جہاں پی آئی اوز مقرر کر دئیے گئے ہیں، وہاں بھی معلومات کی درخواستوں پر ملنے والے جوابات بہت مایوس کن ہیں۔ یہاں تک کہ انفارمیشن کمیشن بھی سرکاری اداروں سے معلومات  دلوانے میں بروقت مداخلت نہ کر سکے۔ پاکستان میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ معلومات کی فراہمی  کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور تجاویز کو  وسیع پیمانے پر شہریوں کے گروپوں، سرکاری اداروں اور انفارمیشن کمیشن میں زیربحث لایا جائے۔

بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت کے لئے کوئی طے شدہ نظام موجود نہیں ہے۔ جہاں کہیں اور جب بھی شہریوں کو ایسا کوئی موقع فراہم کیا جاتا ہے، وہ ایک حق  کے طور پر نہیں بلکہ مہربانی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اس شمولیت کو قانونی تحفظ ملنا چاہئے اور سرکاری اداروں کے لئے لازم ہونا چاہئے کہ وہ بجٹ سازی کے مختلف مراحل کے دوران شہریوں سے مشاورت کریں۔ سروے کے اعدادوشمار  سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمبلیاں بجٹ پر بحث اور اس کی منظوری پر اوسطاً صرف 8 دن صرف کرتی  ہیں۔ بجٹ پر کسی بھی بامعنی بحث کے لئے یہ وقت بہت کم ہے۔ بجٹ سازی کے عمل  پر تقریباً نو ماہ لگتے ہیں جس پر وزارت/محکمہ  خزانہ کے ساتھ ساتھ درجنوں متعلقہ محکموں کا عملہ کام کرتا ہے۔قانون سازوں سے یہ توقع رکھنا ناانصافی ہو گی کہ وہ چند دنوں کے اندر ہی پورے بجٹ پر عبور حاصل کر لیں گے اور اسمبلی میں اس پر بحث بھی کر سکیں گے۔ بجٹ، مالی سال شروع ہونے سے کم ازکم تین ماہ پہلے اسمبلیوں میں پیش کر دیا جانا چاہئے اور اس پر تفصیلی بحث ہونی چاہئے۔ پاکستان میں بجٹ بند کمروں میں بنائے جاتے ہیں۔ اس بات کی توثیق حصول معلومات کیلئے ارسال کردہ درخواستو ں کے نتائج  سے بھی ہوتی ہے۔ اسمبلی میں بجٹ پیش کئے جانے کے بعد یہ تمام متعلقہ فریقوں، میڈیا، ارکان اسمبلی  اور شہریوں کو فراہم کر دیا جاتا ہے، لیکن بجٹ سازی کے عمل کے دوران  جو کچھ بھی ہوا، اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔

تحریر۔فیصل منظور انور

Add Comment