وفاقی بجٹ2019-20 کا تجزیہ

بڑے اہداف کے حصول کیلئے سمت درست کرنا ہوگی۔ٹیکس وصولی کا بڑا ہدف حکومت کیلئے چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

بجٹ کی سب سے آسان او رعام فہم تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے ایک سال کی آمدنی اوراخراجات کے تخمینہ جات کوبجٹ کہتے ہیں۔ لیکن اسکی اہمیت اور افادیت سے قطعی طور پر انکار ناممکن بات ہے کیونکہ یہی ایک ایسی دستاویز ہے جو حکومت کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کیلئے کیے گئے فیصلوں کی عکاس ہوتی ہے اور انہی اعدادوشمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنیوالے چند سالوں میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کا رخ کس طرف ہوگا یا ہو سکتا ہے اورمعاشی ترقی کے کیا اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایک معیشت دان کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے کہ ان پالیسیوں کے ملکی معیشت پر کس قدر اچھے اور دوررس اثرات ہوں گے۔ بجٹ صرف اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے بہت آگے کی دستاویز ہے جو حکومت کی پالیسیوں کو واضح کرتے ہوئے اسکی ترجیحات کی نشاندہی کرتی ہے۔ لہٰذا بجٹ سازی کے دوران کیے جانیوالے فیصلے بہت دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے مختصر مدت کے فیصلے بھی انتہائی اہم ہوتے ہیں کیوں کہ وہ شہریوں کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں مثال کے طور پر تعلیم،صحت،انفراسٹرکچر اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پر پر کتنا خرچ ہوگا۔

ایک معیشت دان کے علاوہ اس ملک کا عام شہری بھی یہ سوچتا ہے کہ بجٹ کا مہینہ آنے سے قبل ہی مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوتا ہے جسے موجودہ حکومت سمیت سابقہ کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی شاید یہی وجہ ہے اس ملک کے باسی سارا سال ہی بجٹ کے آفٹر شاکس برداشت کرتے رہتے ہیں۔میرے خیال میں جتنا انتظار بجٹ کا کیا جاتا ہے شایدہی حکومت کی کسی بھی پالیسی بارے لوگوں میں دلچسپی پائی جاتی ہے اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بجٹ کے دوران ہی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا اعلان کیا جاتا ہے اور خصوصاً ترقیاتی بجٹ کے ذریعے ملک کا مزدور یہ دیکھتا ہے کہ آئندہ ایک سال کے دوران کیسے کیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ انکی روزی روٹی کا سامان پیدا ہو سکے۔

اگر وفاقی بجٹ 2019-20کا تجزیہ کیا جائے تو شعبہ تعلیم اور صحت کے حوالہ سے مایوس کن حقائق سامنے آتے ہیں کیونکہ اس بجٹ میں ان شعبوں کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کر دی گئی ہے۔949,896ملین روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ 2019-20 میں شعبہ تعلیم کیلئے33,780ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ سابقہ مالی سال میں مختص رقم42,766 ملین روپے کے مقابلے میں 8,986ملین روپے کم ہیں اسی طرح 12,671 ملین روپے شعبہ صحت کیلئے مختص کی گئے ہیں جو سابقہ مالی سال کے مقابلے میں 17,328ملین روپے کم ہیں۔ شعبہ تعلیم اور صحت کیلئے مختص کردہ بجٹ وفاقی حکومت کی ان شعبوں کے حوالہ سے ترجیحات کا تعین کیا جاسکتا ہے اس سے زیادہ بھی تکلیف دہ امر یہ ہے سابقہ مالی سال میں ان شعبوں کیلئے مختص بجٹ کو موجودہ حکومت خرچ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ شعبہ صحت پر مختص رقم29,999ملین روپوں میں سے صرف4,257ملین روپے خرچ کیے جاسکے اسی طرح شعبہ تعلیم کیلئے مختص رقم میں سے بھی 18,474ملین روپے خرچہ نہ کیے جاسکے۔ اسی طرح سال2019-20میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 6,783ملین روپے کی کمی کیساتھ29,047ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس شعبہ میں بھی صورتحال دیگر شعبوں سے مختلف نہیں ہے کیونکہ سابقہ مالی سال میں مختص 35,830ملین روپے میں سے صرف21,465ملین روپے خرچ کیے جاسکے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سال اس شعبہ کو دیے گئے فنڈز کیساتھ کیا سلوک کیا جاتاہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے وفاقی سطح پر موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبہ کو نہ صرف اہمیت دی ہے بلکہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی صورتحال کو بھانپتے ہوئے ایک بڑی رقم اس مد میں مختص بھی کی ہے۔یہ بات سچ ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے اگر سابقہ مالی سالوں کے بجٹ کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سال2013-14 سے اب تک ترقیاتی بجٹ کا0.1فیصد سے بھی کم حصہ اس شعبہ کیلئے مختص کیا جاتا رہا ہے لیکن اس بجٹ کا بیشتر حصہ کبھی بھی خرچ نہیں کیا جاسکا۔ اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس شعبہ کیلئے پچھلے مالی سال میں مختص کردہ رقم سے9گنا زیادہ 7,579ملین روپے مختص کرنا تو خوش آئند محسوس ہو رہا ہے لیکن کیا متعلقہ وزارت کی اتنی استعداد کار ہے جو اتنی بڑی رقم کو مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے شفاف انداز میں خرچ کر پائے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ دو سال قبل پانی اور بجلی کے شعبہ کو واٹر مینجمنٹ اور پاور ڈویثرنز میں تقسیم کیا گیا تاکہ دونوں اہم ترین شعبوں میں بہتر منصوبہ بندی کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں جس کے مثبت نتائج نظر آئے ان دونوں شعبوں کی اہمیت کے پیش نظر اس مالی سال میں واٹر مینجمنٹ ڈویثرن کیلئے85,201ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو سابقہ مالی سال2018-19کے مقابلے میں 6,201ملین روپے زائد ہیں لیکن اگر نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کو دیکھا جائے تو سابقہ مالی سال کی مختص شدہ رقم کا بیشتر حصہ خرچ ہی نہیں کیا جاسکا منفی رحجانات کی جانب اشارہ کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں حکومت کی غلط ترجیحات کوبھی واضح کرتا ہے۔

پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کی ترقی ملک کے بہتر نہری نظام میں مضمر ہے تاکہ دوردراز علاقوں اور ٹیل کے کاشتکاروں کو نہری پانی کی دستیابی ممکن ہو سکے۔ اس سلسلہ میں حکو مت کی جانب سے اصلاح آبپاشی کیلئے اضافی بجٹ مختص کیا جانا خوش آئند ہے۔لیکن اگر ان وسائل کو خرچ کرنے میں بہترین منصوبہ بندی نہ کی گئی تو نہ صرف وسائل کا ضیاع ہوگا بلکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بھی حکومت ناکام ہو سکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ متعلقہ وزارت کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے فوری منصوبہ بندی کرکے فنڈز کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا جائے عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ ہر مالی سال کی آخری سہ ماہی میں خرچہ کیا جاتا ہے جو نہ صرف کرپشن کا باعث بنتا ہے بلکہ مطلوبہ اہداف کا حصول بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔

حالیہ مالی سال2019-20میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے مختص 155,967ملین روپے کی رقم کے علاوہ شعبہ مواصلات کیلئے صرف248ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو ترقیاتی بجٹ کا 0.03فیصد بنتے ہیں جبکہ اس شعبہ کیلئے مالی سال 2018-19 میں ترقیاتی بجٹ کا1.26فیصد یعنی 14,481ملین روپے مختص کیے گئے تھے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سال کے دوران مختص رقم کا صرف ایک فیصد یعنی صرف 151 ملین روپے خرچ کیے جاسکے۔حالانکہ مالی سال2017-18 میں اس شعبہ کیلئے مختص13,660ملین کا97فیصد حصہ خرچ کیا گیا تھا۔حالیہ مالی سال میں اس اہم ترین شعبہ کیلئے نہایت ہی قلیل فنڈز کا مختص کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے دیگر انتخابی وعدوں کے مطابق ہی ٹیکس وصولی کا بہت بڑاہدف مقرر کر دیا ہے حالانکہ پچھلے مالی سال کے دوران اس سے کم ہدف بھی حاصل نہیں کیا جاسکا اور مختلف معیشت دانوں کیمطابق حکومتی ہدف غیر حقیقی محسوس ہو تا ہے ان کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کے باعث یہ ہدف حاصل کرنا ناممکن نظر آتا ہے جبکہ ماضی کے اعدادوشمار بھی یہ بتاتے ہیں کہ سال2015-16کے علاوہ کسی بھی مالی سال میں ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اتنے بڑے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر میں بڑی سرعت کیساتھ اصلاحات کی جانی ضروری ہے گذشتہ دنوں تین ہزار سے زائد ایف بی آر کے ملازمین کو ٹرانسفرکرنا ایک اچھی پالیسی ہے کیونکہ سالہا سال سے ایک ہی جگہ پر تعینات افسران نہ صرف کرپشن کو پروان چڑھاتے ہیں بلکہ ٹیکس وصولی میں ناکامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کی جانب سے مختلف شہروں کی چیمبر آف کامرس اور تاجر تنظیموں کیساتھ ملاقاتیں خوش آئند بات ہے کیونکہ پاکستان کے تاجروں کی اکثریت ٹیکس دینا چاہتی ہے اور اگر ایف بی آر میں مثبت اور بہتر اصلاحات متعارف کروادی گئیں تو 5550ارب روپے کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔اسکے علاوہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ بڑھانے کی بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

عوام کا اداروں پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے سالہاسال سے ایف بی آر کے کرپٹ افسران کے چنگل میں پھنسے ٹیکس دہندگان اپنے دیگر نان فائلرساتھیوں کو اس چنگل میں نہ پھنسنے کے مشورے دیتے ہیں اور ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ کبھی ایف بی آر کو سیدھی بات نہ بتاؤ اور سارے اثاثے ظاہر نہ کرو ورنہ پھنس جاؤ گے اس کیساتھ ساتھ حکومت ایف بی آر کے مختلف افسران کی جانب سے مختلف شہریوں کو دے جانیوالے کروڑوں روپوں کے ٹیکس نوٹسز کے جواب میں لاکھوں روپے ٹیکس وصول کرکے فائلوں کو بند کردینے والے کیسز کو بھی دوبادہ دیکھنا ہوگا حکومت کوبیوروکریسی کے اثاثوں بارے بھی تفصیلات حاصل کرکے ایسے تمام کرپٹ افسران کیخلاف بھی کاروائیاں کرنا ہونگی پھر جاکر کہیں عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوگا  اور یہ اعتماد ہی ٹیکس وصولی کے اتنے بڑے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

تحریر۔فیصل منظور انور

Add Comment